کامریڈ نظیر قریشی

 

کامریڈ نظیر قریشی

مرکزی صدر سندھی عورت تنظیم

تحریر : جوگی اسد راجپر




                کامریڈ نظیر قریشی  نے سن 1951  میں ننگر ٹھٹہ شہر میں جنم لیا. وہ ایک سیاسی رہنما، سماجی کارکن اور مصنفہ ہیں. انہوں نے 8 کلاس تک ننگر شہر ٹھٹہ میں آخوند رابیہ اسکول سے تعلیم حاصل کی اور میٹرک حیدرآباد بورڈ سے اے ون  گریڈ میں پاس کی. کسی بھی ظلم کے سامنے کبھی ہار نہ ماننے والی کامریڈ نذیر قریشی دوسری خواتین کے لئے مشل راہ ہیں. وہ بچپن سے ہی ضدی، اور باغی طبیعت رکھتی تھیں. جب بھی ان سے کوئی ناانصافی یا حق تلفی  ہوتی  تھی تو اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے کے لئے سراپہ احتجاج بن کے اپنا احتجاج نوٹ کراتی تھیں. جس کی وجہ سے گھر کے افراد ان سے خفا رہتے تھے.  

لڑکیوں کے لئے تعلیم حاصل کرنا بڑا جرم سمجھا جاتا تھا، اس دقیانوس ماحول میں بھی انہوں نے میٹرک اے ون گریڈ میں پاس کی.

 

    ان کے حریت پسندانہ روئیے کی وجہ سے انکی ماں نے گھر کے دیگر افراد سے ملی بھگت کر کے اس کے بچپن میں ہی 15  سال کی عمر میں 30  سال کے شخص سے ان کی شادی کردی. وہ اسی صورتحال کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھیں، لیکن پھر بھی انہوں نے  اسے اپنا نصیب سمجھ کر قبول کرنے میں اپنی بہتری سمجھی. انہوں نے زندگی کا وہ عرصہ لاشعوری طور پر سماجی غلامی کا حصہ بن کر گزارہ.

 

    پڑھنے کا بہت شوق رکھنے والی کامریڈ نظیر قریشی نے مختلف ڈائجسٹ، کتابیں، ناول، پڑھ کر اپنے علمی شعور کی آبیاری کی. تعلیم کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے انہوں نے اپنے اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلانے کا عہد کیا. آج انکی ایک بیٹی ڈاکٹر اور دوسری بیٹی پی ایچ ڈی ہیں. اور انکا ایک بیٹا ڈاکٹر اور دوسرا بیٹا بیرسٹر ہیں.

 

    گھریلو خاندانی اور سماجی طرح پابند ذہن جب باشعور بن کر نجات اور آزادی کی راہیں بنانے لگا تو سارا ماحول جذباتی ہوگیا. ایک سماجی قیدی بنی ہوئی گھریلو خاتون جو برقعہ پہننے کےسوا  گھر سے بھر نکلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں، وہ 1988  کے لسانیاتی فسادات میں دوسری خواتین کو تڑپتا دیکھ کر خود ظلم کے خلاف ایک آواز بن گئیں. اور اپنی سماجی ھلچل کا آغاز کیا.

    1993  میں وہ  ایشیا کی سب سے بڑی عورت تنظیم سندھیانی تحریک کے مرکزی عھدیداروں میں شامل ہوگئیں. سندھیانی تحریک میں آنے کے بعد انہوں نے محنت اور جفاکشی کے ساتھ کل وقتی سرگرم کارکن بن کر اور ذاتی تعلق توڑ کر عورتوں کی انقلابی رہنما بن گئیں.

    1993  سے لیکر 2007  تک انہوں نے سندھیانی تحریک میں مرکزی صدر کی حیثیت سے ہر جدوجہد میں ہزاروں عورتوں کی نمائندہ بن کر سندھ میں کینجھر سے کارونجھر سے اسلام آباد، لاہور، ملتان ہر جگہ احتجاجوں میں شامل رہیں.

        انہوں نے  2004  میں بمبئ، انڈیا میں ہونے والی ورلڈ سوشل فورم کے زیر اہتمام کانفرنس میں جا کر کالا باغ ڈیم کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروایا.

انہوں نے لانگ مارچ بھی کے جس میں

1 . کالا باغ ڈیم کے خلاف کندھکوٹ سے کراچی تک لانگ مارچ

2 . کالا باغ ڈیم کے خلاف سکھر سے کراچی تک لانگ مارچ

3 . کالا باغ ڈیم کے خلاف بھٹ شاہ سے کراچی تک لانگ مارچ

اس دوران انہونے ریاستی جبر کے خلاف آواز اٹھائی.

 

    1996  میں انہوں نے کاروکاری کے خلاف پورا ایک سال پاکستان بھر میں دستخطی مہم چلائی اور شہروں، قصبوں میں ہونے والے کاروکاری کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی سربراھی کی جس کے بعد اسمبلیون سے کاروکاری کے خلاف اور خواتین کے حقوق کے لئے کچھ قانون پاس ہوئے.

    انہوں نے سماج دشمن عناصر کے خلاف جنگ جاری رکھی، 3  فروری 2001  میں ٹھٹہ شہر کے مرکزی چورنگی پر وڈیرہ شاہی نے ان کو مارنے کے لئے خطرناک ایکسیڈنٹ کروایا.

    عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں انہوں نے مشرف اور گیلانی کے خلاف دو سال تحریک چلائی، جس میں انہوں نے عورتوں کو شعور دیکر 12  مئی 2007  کراچی میں بھی احتجاج کیا، جب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ائیرپورٹ پر موجود تھے، تب وہاں پر خون کی ہولی کھیلی گئی، اس دوران سندھیانی تحریک کی کارکن عورتوں کی سربراھی کرنے والی نظیر قریشی نے دہشگردوں کی آوازیں سنی  جو آپس میں  بول رہے تھے کہ ان عورتوں کی لیڈر کو ٹارگٹ کرو. اور پھر دہشتگردوں نے فائرنگ شرو کردی، ایک گولی کامریڈ نظیر کو چھو کر ساتھ کھڑے ساتھی کارکن محمد نواز کندلانی کو لگ گئی جو موقعے پر ہی شہید ہو گئے.

 

·        1997 کی الیکشن میں انہوں نے عوامی تحریک کی ٹکٹ پر پی ایس  47  قاسم آباد میں امیدوار کے طور پر  کھڑی رہیں اور ان کا انتخابی نشان بس تھا. مگر پارٹی ان کا ساتھ نہی دیا. اسی نشست پر 11  دیگر پارٹیوں کے امیدوار بھی الیکشن لڑ رہے تھے.

·        ہر سال پاکپتن کی جانب سے ملتان میں ہونے والی 8  مارچ کو عورتوں کے عالمی دن پر سندھیانی تحریک کی عورت کارکنوں کو لے کر ٹرین میں ملتان جاتی رہی، وہاں پر انہوں نے مختارا مائی سی بھی ایک ملاقات کی تھی جس کے ساتھ انکی ایک تصویر ڈان اخبار میں شایع ہوئی تھی.

·        2009  میں انہوں نے سندھیانی تحریک اور عوامی تحریک سے علیحدگی اختیار کرلی.

·        2011  میں عوامی جمہوری پارٹی میں شامل ہونے کے بعد انہوں نے سندھی عورت تنظیم کی بنیاد 2011  میں رکھی. اور ابھی تک اس تنظیم سے وابستہ ہیں.

·        2014  میں انہوں نے سندھ میں تعلیمی تباہی کے خلاف سندھ بھر میں احتجاج، بھوک ہڑتالیں، لانگ مارچ کر کے تحریک چلائی.

·        انہوں نے 1988  میں سماجی سرگرمیاں شرو کیں.

·        گھوٹکی میں ان کے نام سے ایک لائبریری بھی قائم ہے

 

 

Comments

Popular posts from this blog

سنڌي وڪيپيڊيا تي مضمون ڪيئن لکجي

بھتر فريلانسر ھجڻ لاءِ 20 قيمتي صلاحيتون جيڪي توھان (مفت ۾) سکي سگھو ٿا

Rich Dad Poor Dad book review and synopsis by JogiAsadRajpar